Matric Notes Class 10th Urdu خلاصہ نظریہ پاکستان ڈاکڑ غلام مصطفی خان

Matric Notes Class 10th Urdu

خلاصہ نظریہ پاکستان ڈاکڑ غلام مصطفی خان

Matric Notes Class 10th Urdu خلاصہ نظریہ پاکستان ڈاکڑ غلام مصطفی خان


If you want to view other notes of Urdu 10th. Click Here

خلاصہ:

ڈاکڑ غلام مصطفی خان مشہور مضمون نگار تھے۔ سبق نظریہ پاکستان میں انھوں نے قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالی۔

مسلمانوں نے ہمیشہ رواداری کو اپنا شیوہ بنایا ہے لیکن جب کفار غلبہ حاصل کرنا چاہے تو مسلمان ڈٹ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ مسلم فرمارواوں نے ہمشہ رواداری کا مظاہرہ کیا۔ جلال الدین اکبر اس فکر میں حد اعتدال سے بھی آگے نکل گئے۔ اس کی ہندوں کی بے جا ناز برداری  نے مسلمانوں کی دینی معاملات میں آزادی ختم کردی۔ چنانچہ سب سے پہلے صدائے احتجاج شیخ احمد رح سر ہندی المعروف مجدالف ثانی نے بلند کیا۔ انھوں نے اکبر اور جہانگیر کو ان کی غلط روایات پر ٹوکا۔ اس کا نتیجہ تھا کہ بعد میں آنے والے بادشاہ شاہ جہاں اور اورنگزیب عالمگیر دینی دلی تڑپ سے سرشار تھے۔ اورنگزیب نے اپنی سی بھر پور سعی کی مگر اسکی وفات 1707ء کے بعد بد قسمتی سے جو لوگ تخت نشین ہوئے وہ تن آسان اور عیش و مستی کے دلدار تھے نتیجہ یہ کہ مسلم اقتدار کی کشتی ہچکولے کھانے لگی۔ صورت حال کی اصلاح کے لیے نواب سراج الدولہ، نواب حیدرعلی اور ٹیپو سلطان نے جان تک کی بازی لگانے سے گریز نہ کیا۔ شاہ ولی اللہ دہلوی نے مسلمانوں کی اخلاقی اور معاشرتی برائیوں کو دور کرنے کی تحریک شروع کی۔ شاہ اسماعیل رح اور سید احمد بریلوی رح نے آزادی کے لیے جانیں قربان کر دیں۔ مگر اب صورتحال نہایت خراب ہوچکی تھی۔ انگریزی اقتدار کے منحوس سائے برصغیر کو اپنی لپیٹ میں لیتے چلے جارہے تھے ایسے میں سرسید نے وقت کے تقاضے کو محسوس کیا اور مسلمانوں کو زیور تعلیم سے آراستہ ہونے کی تلقین کی تاکہ وہ انگریزوں اور ہندووں کے بچھائے ہوئے جال سے بچ سکیں۔ 1885ء میں کانگریس کا قیام اسی مسلم دشمن سلسلے کی کڑی تھا۔ مسلمانوں نے سرسید کے زیر اثر سمجھ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اس سے مکمل لا تعلقی اختیار کی۔ انھوں نے 1906ء میں "مسلم لیگ" کے نام سے خود اپنی سیاسی جماعت قائم کرلی۔ سرسید کی تحریک سے وابستہ افراد اس میں پیش پیش تھے۔ اب تک یہ بات اچھی طرح واضح ہوچکی تھی کہ ہندوانگریز گٹھ جوڑ نیک فال نہیں، مسلم دشمنی ان میں قدر مشترک ہے چنانچہ انھیں ہر طرح سے چوکنا رہنا ہوگا۔ 1911ء میں تقسیم بنگال کی تیسیخ، 1919 کی تحریک خلافت، شدھی، سنگھٹن تحریک اور 1928ء کی نہرو رپورٹ یہ وہ واقعات تھے جنھوں نے ہندو ذہنیت کی قلعی کھول کت رکھ دی۔ دوسری طرف پہلی جنگ عظیم کے بعد سلطنت عثمانیہ کے  خلاف وعدہ حصے بخرے کرنا، انگریز ذہنیت کا عکاس ہے۔ اس سب سے مسلمانوں نے بجا طور پر یہ نتیجہ نکالا کہ انگریز اقتدار کی چھتر چھاوں اور ہندووں کے معیت سے کھبی خیر بر آمد ہو سکتا۔ 1929ے میں قائداعظم کے چودہ نکات اور 1930ے کا علامہ اقبال کا خطبہ الہ آباد، یہ مسلم قیادت کے بدلے ہوئے لہجے کے غماز تھے۔ 1937ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی کانگریسی حکومتوں کا چہرہ بے نقاب ہوگیا جو مسلمانوں کو 23 مارچ 1940ء میں "قیام پاکستان" کو اپنی منزل ٹھرانے کا محرک بنا۔ مسلمانوں کی قومیت ایک نظریاتی قومیت ہے جو لاالہ الا اللہ پر قائم ہے۔ برصغیر کے مسلمان مختلف رنگوں، نسلوں اور جغرافیائی خطوں کے تھے لیکن ایک قوم تھے، چنانچہ انھوں نے اپنے لیے الگ وطن کا مطالبہ کیا۔ مسلمانوں کی سات سال کی شبانہ روز محنت رنگ لائی اور 14 اگست 1947ء کو وطن عزیز وجود میں آیا۔ قیام پاکستان کا مقصد فقط ایک خط ارضی کا حصول نہ تھا بلکہ اس کے پیچھے کار فرما "نظریہ" کا مقصد ایک اسلامی اور فلاحی مملکت کا قیام تھا جو بد قسمتی سے اب تک حاصل نہیں ہو سکا۔ اس کا حصول صرف اسی صورت ممکن ہے جب ہم اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے ذاتی مفاد پر اجتماعی مفاد کو اور گروہ بندی پر یکجہتی کو ترجیح دیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے قول و فعل کو اسلام کے سانچے میں ڈھالیں اور اپنے ملک کو مضبوط و مستحکم بنانے کے لیے کوئی وقیقہ فروگذاشت نہ کریں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post