Matric Notes Class 10th Urdu
خلاصہ نام دیو مالی
.If you want to view other notes of Urdu 10th. Click Here
خلاصہ:
بابائے اردو مولوی عبدالحق اردو زبان کے محسن، محقق، نقاد
اور عمدہ انشاپرداز تھے۔ سبق "نام
دیو مالی" میں انھوں نے مالی، نام دیو کے شخصی خصائل کا خاکہ کھینچا
ہے۔
نام دیو، مقبرہ رابعہ دورانی اورنگ آباد دکن کے باغ میں مالی تھا۔ کم ذات ہونے کے باوجود ایک اچھے انسان کی تمام خوبیوں سے آراستہ تھا۔ اسے اپنے پیشے سے بے حد لگاو تھا۔ کام میں مصروفیت کے وقت اسے تن، من اور دھن کی کحچھ خبرنہ ہوتی۔ اپنے پودوں کو اپنی اولاد خیال کرتا اور جب بھی دیکھو انہی کی تراش خراش میں مصروف نظر آتا۔ اگر کسی وجہ سے کسی پودے کو کحچھ ہو جاتا تو اس کی جان پر بن جاتی۔ جب تک مسلہ حل نہ ہو جاتا چین سے نہ بیٹھتا۔ اس کا کام باغبانی تھا اسے باغ باغیچوں میں رہ رہ کر جڑی بوٹیوں کی خاصی پہچان ہوگئی تھی وہ اپنی اس مہارت کو لوگوں، بالخوص بچوں کے علاج میں استعمال کرتا مگر اس کو اس نے اپنی آمدن کا ذریعہ کبھی نہ بنایا۔ صفائی ستھرائی کا تو وہ خوگر تھا۔ وہ نہ صرف ذاتی صفائی رکھتا بلکہ اپنے باغ کو بھی صاف و شفاف رکھتا۔ اس کی پوری خواہش اور کوشش ہوتی کہ اس کا چمن جھاڑجھنکار سے پاک رہے۔ پودوں کے تھانولے درست اور صاف رہیں۔ اپنی کوشش میں وہ پورے طور پر کامیاب رہتا۔ اسی لیے اسے کبھی سخت سست کہنے کی ضرورت نہ پڑی۔ جب خشک سالی کا دور دورہ تھا، باغ بغیچے پانی نہ ملنے کے باعث سوکھ چکے تھے، تب بھی نام دیو کا گلشن ہرا بھرا تھا۔ اس نے اپنا دن رات کا آرام و سکون چھوڑ کر بھی اپنے چمن کو فراہمی آب جاری رکھی۔ اس کی مثال کارگزاری بغیر کسی انعام کے لالچ اور صلے کی تمنا کے تھی۔ یہی کام سے محبت تھی کہ جس وجہ سے اس کا گلشن ایک خوبصورت سیرگاہ میں بدل چکا تھا۔ بلاشبہ نام دیو ایک غریب آدمی تھا مگر وہ وسائل کا غریب نہ تھا، دل کا غریب نہیں تھا۔ وہ اپنے محدود وسائل میں رہ کر بھی اپنے غریب بھائی بندوں کی مدد کرتا اور ہر کسی سے خوشدلی سے ملتا۔ اس کا چہرہ ہمشیہ مسکراہٹ سے سرشار رہتا۔ وہ غرور، تعصب اور قابت جیسے جذبات سے عاری تھا۔ اس کی تمام تر پسند و ناپسند اس کے کام تک محدود تھی۔ جب اعلی حضرت نے ایک باغ کی ذمہ داری نواب سراج یار بہادر کے سپرد کی جو کہ باغبانی کا بہت اعلی ذوق رکھتے تھے اور انہی کی وجہ سے سنسان مقبرہ اور بنجر باغ سرسبز و شاداب نظر آنے لگا۔ نواب صاحب نام دیو کو بڑی اہمیت دیتے تھے اسی وجہ سے نام دیو کو شاہی باغ میں لے گئے۔ شاہی باغ کو خوبصورت اور روح پرور مقام بنانے کے لیے بڑی دور دور سے تعلیم یافتہ مالی بلائے گئے لیکن نام دیو اس سب سے مختلف تھا۔ وہ پڑھا لکھا تو نہیں تھا لیکن کام سے لگاو اور سچی محبت کی وجہ سے اس کا کام سب سے اچھا ہوتا تھا۔ ایک بار وہ عالمِ محویت میں مصروف کار تھا کہ نجانے شہد کی مکھیوں کا ایک غضبناک غول کہاں سے آیا اور اس کے لیے پیغام اجل بن گیا۔ یوں دوسروں میں مسرتیں تقسیم کرنے والا اور ان کو مسائل کی دلدل سے نکالنے والا خود موت کی دلدل میں اتر گیا۔
Post a Comment