Matric Notes Class 10th Urdu خلاصہ مرزا محمد سعید شاہد دہلوی

Matric Notes Class 10th Urdu

خلاصہ مرزا محمد سعید شاہد دہلوی

Matric Notes Class 10th Urdu خلاصہ مرزا محمد سعید شاہد دہلوی


If you want to view other notes of Urdu 10th. Click Here

خلاصہ:

شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے مشہور ادیب تھے۔ سبق :مرزا محمد سعید" میں انھوں نے پروفیسر مرزا محمد سعید کی شخصی خوبیوں کا خاکہ کھینچا ہے۔ مضمون کے آغاز میں مرزا محمد سعید صاحب کی خاموش وفات پر شدید دکھ کا اظہار کرتے ہیں کہ خود انھیں مرزا صاحب کی وفات کت تیسرے دن پتا چلا اور وہ بھی اخبارات کے زریعے۔ ان کی موت کی خبر ان کے سیکڑوں دوستوں کو نہ ہوسکی۔ مصنف نے مرزا صاحب کے موت کو ایک عالم کی موت قرار دیا ہے۔ مرزا صاحب ہر کام نہایت خاموشی سے کرتے۔ وہ اپنی تسکین کے لیے کام کرتے تھے فرمائش پر یا پیسوں کی خاطر نہیں۔ انھوں نے تمام عمر کام کرتے ہوئے گزادی مگر انھیں نہ ستائش کی تمنا تھی نہ صلے کی پروا۔ بہت سے پبلشروں نے بھاری معاوضہ دے کر ناول لکھوانا چاہا مگر وہ انھیں مجبور نہ کرسکے۔ لاہور کے ایک پبلشر نے مرزا صاحب کو اس دور میں ایک ہزار روپے کی پیش کش کی مگر منہ کی کھائی۔ مرزا صاحب نے جواب دیا کہ اگر آپ پانچ ہزار روپے بھی دیں تب بھی میں اپنا تحقیقی کام مذہب اور باطنیت چھوڑ کر ناول نہیں لکھ سکتا۔ مرزا صاحب نے اپنا پہلا ناول "یاسمین" بلا معاوضہ اپنے ایک شاگرد پبلشر سے چھپوایا۔ دوسرا ناول "خواب ہستی" بھی بغیر کہچھ دیے چھپا۔ مرزا صاحب کی معرکۃالآراء کتاب "مذہب اور باطنیت" بھی بغیر کسی معاوضے کے چھپی اور یہ وہ کتاب ہے کہ اگر اردو کی سو بہترین کتابوں کا انتخاب کیا جائے رو یہ کتاب ین میں ضرور شامل ہوگی۔ مرزا صاحب دلی کے شریف اور متمول گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ سرسیداحمدخان اور منشی ذکااللہ کے مکان ان کے گھر کے نزدیک تھے۔ سرسید اور منشی ذکااللہ سے مرزا صاحب کی رشتےداری بھی تھی۔ ان دنوں مسلمان انگریزی تعلیم کو برا جانتے تھے۔ مرزا صاحب نے گورنمنٹ کالج سے تعلیم حاصل کی۔ بعد میں علی گڑھ کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر بھی مقرر ہوئے آپ نے علامہ اقبال سے بھی اکتساب فیض کیا۔ پطرس اور تاج دونوں مرزا صاحب کے شاگرد ہے۔ پطرس مرزا صاحب کی عزت وائسراےَ ہند سے بھی بڑھ کر کرتے تھے۔ جنگ کے زمانے میں جب پطرس نے ایک ادبی حلقہ تشکیل دیا جس کا ماہانہ جلسہ پطرس یا ڈاکڑ تاثیر کے گھر ہوتا۔ ایک دفعہ اسی طرح کے جلسہ میں مرزا صاحب نے ایک اسبی مقالے پر اپنی محتاط راےَ دی۔ پطرس نے شوخی سے کام لے کر فیض کو اشارہ کیا جو مرزا صاحب کے بات کاٹ کر بولنے لگے اس پر مرزا صاحب اس قدر جلال میں آئے کہ فیض دمہ بخود رہ گےَ اور ان پر مرزا کی علمیت کا اس دن جوہر کھلا۔ پطرس نے چاےَ کا سامان رکھوا کر معاملہ ختم کیا۔ مرزا صاحب کو مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ گھنٹوں مطالعہ کرتے اور آپ کی پینشن کا بڑا حصہ کتب کی خریداری پر صرف ہوتا۔ آپ کی اولاد بڑی سعادت مند اور بیوی بھی بہت سلیقہ شعار تھیں۔ آپ کی بیگم عمدہ ادبی زوق رکھتی تھیں۔ ان کے دو ایک ناول بھی چھپ چکے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل آپ صوبائی مسلم لیگ کے صدر بھی بنے۔ کراچی یونیورسٹی کے مشیر بھی رہے اور 1959ء میں پاکستانی ادیبوں کے گلڈ کی صدارت بھی کی۔ چالیس برس کی عمر میں آپ کے ہاتھوں میں رعشہ بھی آگیا تھا جس کی وجہ سے لکھنے میں دقت ہوتی تھی۔ آپ بہت خوش اخلاق، خوش مزاج اور خوش لباس تھے۔ دوست کم ہی بناتے تھے کیوں کہ آپ کا نظریہ تھا آپ بھلے اپنا گھر بھلا۔ موت برحق ہے لیکن مرزا صاحب کی وفات کا صدمہ اس لیے زیادہ ہے کے ایسے قابل اور عظیم لوگ زمانے میں کم ہی پیدا ہوتے ہیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post