Matric Notes Class 10th Urdu
خلاصہ خطوط اسد اللہ خاں غٖالب
خلاصہ:
مرزا اسد اللہ خان غالب، اردو کے شہرہ آفاق شاعر
اور نثر نگار تھے۔ ان کے مکاتیب اردو نثر کا سرمایہ ہیں۔ ان کی جدت پسندی نے اردو
نثر کو نیا انداز آہنگ عطا کیا۔ انھوں نے خطوں کے رسمی انداز کو ترک کرکے خط کو بے
تکلفانہ گفتگو اور شخصی و دلی جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔
مرزا غالب منشی ہر گوپال کے کول سے خط آنے کا
انتظار کررہے تھے لیکن وہ سکندر آباد آگئے وہاں سے غالب کو خط لکھا۔ شیونرائن کر
مطبع آگرہ میں غالب کی کتابوں کی چھپائی جاری ہے اور خواہش ہے کہ کام اچھا ہو
جائے۔ منشی بالمکند کے خط کا جواب نہیں دے سکے منشی ہر گوپال کے ذمہ لگایا کہ ان
کو سلام کہیں اور کتابوں کی بابت دریافت بھی کریں۔
منشی ہرگوپال کے نام دوسرے خط میں ناراضی کا
اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شاید کوئی نیا قانون آگیا ہے کہ سکند آباد کے لوگ دلی
والوں کو خط نہ لکھیں گے۔ منشی شیونرائن کے مطبع میں غالب کی کتابیں چھپ رہی تھیں
وہ مکمل ہو کر آگئی ہیں۔ چھاپا، سیاہی، کاغذ، خط وغیرہ سب اچھا تھا اور غالب کو یہ
کتابیں پسند آئیں۔ وہ منشی ہر گوپال سے آگرہ آمد کے بارے میں پوچھتے ہیں۔
میر مہدی کے نام خط میں غالب بتاتے ہیں کہ حالات اچھے نہیں کاغذ اور ٹکٹ کی کمی ہے، کتاب سے کاغذ پھاڑ کر میرمہدی کو خط لکھتے ہیں اور کسی طرف سے آمدن کی امید ہے وہ آجائے تو ٹکٹ، کاغذ لفافے منگوالوں۔ برخودار میر نصیرالدین کو بیٹی کی مبارک دیتے ہوئے عظیم النسا بیگم نام تجویز کیا ہے۔ میر مہدی کو ہدایت کرتے ہیں کہ میرنصیرالدین کو مجتہد العصر لکھا کرے۔دلی کی بابت بیان کرتے ہیں کہ ہر چیز پر ٹیکس لگا ہے سوائے اناج اور اپلوں کے۔ جامع مسجد کے گرد میدان کھودا جارہا ہے۔ دکانیں اور حویلیاں مسمار کی جارہی ہیں۔ بہادر شاہ ظفر حاکم اکبر کی آمد کی خبر ہے کہ وہ دلی آئیں گے یا نہیں، آتے ہیں تو بلاوا آتا ہے یا نہیں۔ پنشن بند ہوگئی تھی، معلوم نہیں کہ کب اس کا دوبارہ اجرا ہو۔
Post a Comment